Monday 13 March 2017

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے!

0 comments
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے!
مذہبی معمولات سے دوری مسلمانوں کے زوال کی اولین وجہ
از قلم:- محمد شاہد رضا نجمیؔ
آج کا دور بڑی سرعت کے ساتھ ارتقائی منزلوں کی راہیں طے کررہا ہے۔ آئے دن جدید اشیا کی ایجادات، دنیوی فوز وفلاح کے نئے نئے راستوں کی تفتیش، وسائل کی فراوانی اس عالمِ رنگ وبو کے مادّی چہرے کو نکھارتی چلی جارہی ہے۔ زمین وآسمان کی وسعتیں سمٹتی چلی جارہی ہیں، علمی اور فکری شاہراہیں ہموار ہورہی ہیں۔ مگر اسے شومیِ قسمت کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ دنیا ترقی کررہی ہے، مسلمان تنزلی کے شکار ہورہے ہیں۔ کون یہ سوچ سکتا تھا کہ جس اسلام نے افقِ عالم سے کفر وشرک کو محو کیا ہو اور بحر وبر کی وسعتوں میںکامیابی اور سربلندی کے ابواب کھولے ہوں، اسی کے متبعین وپیروکار ذلت ورسوائی، سب وشتم، غربت وافلاس، ضعف وجہل، تنگ دستی اور محتاجگی کے شکار ہوجائیں گے۔ اہلِ دنیا کو علم وفکر کی راہ چلانے والی قوم ایک نا خواندہ طبقے کی صورت میں سطحِ عالم پر ابھرے گی۔ غیر مسلم قومیں بیدار ہوکر اپنے مذہبی عقائد ومعمولات کے تحفظ کی بھر پور کوششیں کررہی ہیں اور اس کے لیے سر وجان کی بازی لگانے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار سمجھ رہی ہیں، مگر مسلمان ہیں کہ اب تک غفلت کی دبیز چادر اوڑھے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ یقینًا یہ مسلمانوں کی تاریخ کا نہایت ہی سیاہ ترین باب ہے جس کا نتیجہ تباہی وبربادی، ذلت ورسوائی، زوال وانحطاط کی صورت میں نکل رہا ہے۔ امت مسلمہ اپنے مذہبی معمولات کی اطاعت وتحفظ سے غافل ہے تو اممِ باطلہ ان پر قدغن لگانے کے لیے بھرپور کوشاں ہیں۔
 یہ مسلّمات میں سے ہے کہ دینی اور مذہبی معمولات کا تحفظ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ عملاً ان کا تحفظ کیا جائے اور اسی میں یہ امت کافی پیچھے رہی، جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ ہمارے مذہبی عبادت خانوں اور تعلیمی اداروں کو پابندِ سلاسل کرنے کی پورے زور وشور کے ساتھ کوشش کی گئی۔ پہلے ہمارے آئینی حقوق سے نظریں پھیری گئیں اور انھیں پسِ پشت ڈال دیا گیا، پھر ہمارے مذہبی حقوق پر سوالیہ نشان لگائے گئے۔ دنیا اپنے مذہب وملت کی پیروی میں آزاد ہے، جس طرح چاہے مذہب وملت پر عمل کرے مگر وہ مسلمانوں کے ارد گرد قید وبندش کا گھیرا ڈال رہی ہے۔ اب آپ اذان کے وقت مائک کے استعمال کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ ایک طویل عرصے سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مائک کے ذریعے اذان دینے کا عادی ہے، لیکن اب عداوتِ اسلام کے ناپاک جذبے سے سرشار بعض افراد اس پر روک لگانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے ہیں۔ ابتدا ان کی اذانِ فجر سے ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ صبح کی اذان مائک کے ذریعے نہ دی جائے، سب کی نیندیں خراب ہوتی ہیں، پھر بڑی مشکل سے آنکھوں میں نیند آتی ہے۔ اس مسئلے کو لے کر کورٹ اور کچہری کے کافی چکر بھی لگائے گئے۔ اسے اسلام دشمنی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ مندر کے گھنٹوں کی آواز سے جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اذان کی آواز سے ان کے کانوں کے پردے ہلنے لگتے ہیں اور ان کی نیند کا جنازہ نکلنے لگتا ہے۔ شکوہ انھیں در حقیقت اس کا نہیں ہے کہ نیند خراب ہوتی ہے شکوہ تو اس بات کا ہے کہ صبح کے وقت نغماتِ الٰہیہ فضائوں میں گونجتے ہیں اور فضائے آسمانی میں جلالتِ کبریائی کے غلغلے بلند ہوتے ہیں۔ 
بعض مقامات پر اس منصوبے میں وہ کامیاب بھی ہوچکے ہیں اور حکومت نے فجر کی اذان میں مائک کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے اور بعض جگہوں پر یہ معاملہ ابھی التوا میں پڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی خامی اور کوتاہی خود ہماری ہی  ہے۔ اگر ہم نے نمازوں کی حفاظت کی ہوتی، خدائے وحدہٗ لاشریک کے حضور اپنے سروں کو جھکایا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ جب ہم اس عائد شدہ پابندی کے خلاف آہ وفغاں کرتے ہیں ، حکومت کو اسلامی عداوت کا حوالہ دے کر کوستے ہیں تو جوابًاکہا جاتا ہے کہ نمازِ فجر میں صرف چند افراد ہی شریک ہوتے ہیں تو اس کے لیے مائک کے ذریعے اذان دے کر دوسروں کی نیند یں خراب کرنا کون سی دانائی ہے۔ ابھی دو سال قبل ممبئی کے ایک علاقے میں حکومت کی جانب سے اذانِ فجر کے لیے مائک کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ اہلِ محلہ کے احتجاج پر پولیس نے کہا کہ نماز کے لیے جب صرف چند افراد ہی آتے ہیں تو پورے محلے میں مائک کی گونج سے شورو شغب پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔ آپ لوگ دیکھ لیں اگر محلے کے اکثر افراد نماز میں حاضر ہوتے ہیں تو پابندی اٹھالی جائے گی، ورنہ عائد رہے گی۔ جب معائنہ کیا گیا تو صرف چند افراد ہی نماز کے لیے حاضر ہوئے اور پابندی حسبِ سابق عائد ہی رہی۔ اس نوع کے اور بھی واقعات ہیں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ 
یوں ہی آپ بائک چلانے کے دوران ہیلمٹ کے استعمال کے مسئلے کو بھی دیکھ لیں۔ جب حکومت کی جانب سے بائک چلانے کے دوران ہیلمٹ کا استعمال لازم وضروری قرار دیا گیا تو سکھ قوم نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور کہا کہ پگڑی باندھنا ہمارے مذہب کا شعار ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر اپنے مذہبی شعار سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ چوں کی یہ اپیل قوم کے سارے افراد کی تھی اس لیے منظور کرلی گئی اور انھیں اپنے مذہبی شعار پر جمے رہنے کی رخصت مل گئی اور جب مسلمانوں کے ایک غیور وحساس طبقے نے عمامے کا مسئلہ حکومت کے سامنے رکھا تو یہ کہہ کر اسے رد کردیا گیا کہ آپ کی قوم کے صرف بعض افراد ہی عمامہ استعمال کرتے ہیں اور ہم بعض لوگوں کے لیے اپنا لازم کردہ فیصلہ نہیں واپس لے سکتے۔ 
آخر کب تک ہم اپنے دینی ومذہبی معمولات سے غفلت کے شکار رہیں گے۔ ان غفلتوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ خدا نہ خواستہ کہیں یہ نکلے کہ رفتہ رفتہ دین ومذہب پر عملی آزادی کا سارا حق ہم سے چھین لیا جائے۔ آج صرف فجر کی اذان کے لیے مائک کے استعمال پر پابندی عائد کی جارہی ہے، کل دیگر اذانوں کے لیے بھی کسی نہ کسی حیلے کی آڑ میں پابندی عائد کی جائے گی۔ فَوَیْلٌ لِّلمُصَلِّیْنَ الَّذیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ، (الماعون، ۴۔۵) مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ۔ (کنز العمال، ۷۔۲۸۰)  مَنْ تَرَکَ الصَّلوٰۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہٗ وَالصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ۔(بیہقی شعب الایمان، ۳۔۳۹) وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ۔ (سنن النسائی،۷۔۶۱) جیسی آیتیں اور حدیثیں پڑھنے اور سننے کے بعد بھی اس طرح کی کوتاہی کیا اس کی صراحت نہیں کردیتی کہ ہمارا ایمانی وعملی کشکول بالکل ہی خالی ہوچکا ہے۔ ہمارا جذبۂ اطاعت اس قدر مردہ ہوچکا ہے کہ نمازِ فجر کے لیے ہماری آنکھیں بیدار نہیں ہوتیں، چند لمحوں کی خوابیدگی نمازِ فجر جیسی عظیم عبادت سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوچکی ہے۔ ہمارے قول سے یہ ظاہر ہو یا نہ ہو، عمل سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے۔ فجر کی دو رکعت سنتوں کے حوالے سےسرکارﷺ فرماتے ہیں: رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ۔(مسلم،۲۔۱۶۰)  فجر کی دو رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہیں۔ امام فقیہ ابو اللیث سمر قندی نے حضرتِ کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا کہ توریتِ مقدس میں نمازِ فجر کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: یامُوسیٰ! رَکْعَتَانِ یُصَلِّیْھِمَا اَحْمَدُ وَاُمَّتُہٗ وَھِیَ صَلاَۃُ الْغَدَاۃِ، مَنْ یُّصَلِّیْھِمَا غَفَرْتُ لَہٗ مَا اَصَابَ مِنَ الذُّنُوْبِ مِنْ لَیْلِہٖ وَیَوْمِہٖ ذَالِکَ وَیَکُوْنُ فِیْ ذِمَّتِیْ۔اے موسیٰ! فجر کی دورکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دُوں گا اور وہ میرے ذمّے میں ہوگا۔(تنبیہ الغافلین، باب فضل ا مۃ محمدﷺ،ص:۴۰۴) کیا اس طرح کی روایتیں صرف بیان کے لیے ہیں، عمل کی خا طر نہیں ؟اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے تائب ہوں اور عملا وقولا ہر طرح سے مذہبی معمولات کے تحفظ کی فکر میں لگ جائیں۔ اسی میں ہماری دنیوی کامیابی ہے اور آخرت میں نجات بھی۔ 
باہر نہیں ہے اشک ابھی چشمِ تر میں ہے
آجاؤ گھر کی بات ابھی گھر کے گھر میں ہے


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔